بے حس و کج فہم و لاپروا کہے
کل مؤرخ جانے ہم کو کیا کہے
اس طرح رہتے ہیں اس گھر کے مکیں
جس طرح بہرہ سنے، گونگا کہے
راز ہائے ضبطِ غم کیا چھپ سکیں
اس لیے ہر شخص کو دیکھا کیا
کاش کوئی تو مجھے اپنا کہے
ہے تکلّم آئینہ احساس کا
جس کی جیسی سوچ ہو ، ویسا کہے
بدگمانی صرف میری ذات سے
میں تو وہ کہتا ہوں جو دنیا کہے
پڑھ چکے دریا قصیدہ ابر کا
کیا زبانِ خشک سے صحرا کہے
مرتضیٰ برلاس
No comments:
Post a Comment