Saturday, 13 June 2020

تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا

تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
دور تک تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا
کیجیۓ کیا گفتگو، کیا ان سے مل کر سوچیۓ
دل  شکستہ خواہشوں کا ذائقہ رہ جائے گا
درد کی ساری تہیں اور سارے گزرے حادثے
سب دھواں ہو جائیں گے اک واقعہ رہ جائے گا
یوں بھی ہو گا وہ مجھے دل سے بھلا دے گا، مگر
یہ بھی ہو گا خود اسی میں اک خلا رہ جائے گا
دائرے انکار کے، اقرار کی سر گوشیاں
یہ اگر ٹوٹے کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا

افتخار امام صدیقی

No comments:

Post a Comment