تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا
دور تک تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا
کیجیۓ کیا گفتگو، کیا ان سے مل کر سوچیۓ
دل شکستہ خواہشوں کا ذائقہ رہ جائے گا
درد کی ساری تہیں اور سارے گزرے حادثے
یوں بھی ہو گا وہ مجھے دل سے بھلا دے گا، مگر
یہ بھی ہو گا خود اسی میں اک خلا رہ جائے گا
دائرے انکار کے، اقرار کی سر گوشیاں
یہ اگر ٹوٹے کبھی تو فاصلہ رہ جائے گا
افتخار امام صدیقی
No comments:
Post a Comment