Saturday, 13 June 2020

وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں

وہ خواب تھا بکھر گیا خیال تھا ملا نہیں
مگر یہ دل کو کیا ہوا کیوں بجھ گیا پتا نہیں
ہر ایک دن، اداس دن، تمام شب اداسیاں
کسی سے کیا بچھڑ گئے، کہ جیسے کچھ بچا نہیں
وہ ساتھ تھا تو منزلیں نظر نظر چراغ تھیں
قدم قدم سفر میں اب کوئی بھی لب دعا نہیں
ہم اپنے اس مزاج میں کہیں بھی گھر نہ ہو سکے
کسی سے ہم ملے نہیں،۔ کسی سے دل ملا نہیں
ہے شور سا طرف طرف کہ سرحدوں کی جنگ میں
زمیں پہ آدمی نہیں،۔ فلک پہ کیا خدا نہیں

افتخار امام صدیقی

No comments:

Post a Comment