Monday, 15 June 2020

حرف بے صوت و بے صدا ہوں میں

حرفِ بے صوت و بے صدا ہوں میں
اپنی آواز سن رہا ہوں میں
ایک بیوہ کی آنکھ کا دکھ ہوں
ایک مفلس کا بچپنا ہوں میں
کوئی تصویر سے نکالے مجھے
کتنا سہما ہوا کھڑا ہوا ہوں میں
شور کے بحرِ بیکراں میں دوست
ایک دم توڑتی صدا ہوں میں
تُو محبت کا اک صحیفہ ہے
جس کا منظوم ترجمہ ہوں میں
خامشی ترجمان ہے میری
ایک متروک قہقہہ ہوں میں
ایسا ٹوٹا ہوں جڑ نہ پاؤں گا
تم تو کہتے تھے دیرپا ہوں میں
جانے کس کی تلاش میں ذی شان
آئینوں میں بھٹک رہا ہوں میں

ذیشان مرتضیٰ

No comments:

Post a Comment