Monday 15 June 2020

خنجر سے سوا کاٹ ہے اب تار نفس میں

خنجر سے سوا کاٹ ہے اب تارِ نفس میں
مرنا مِرے بس میں ہے نہ جینا مِرے بس میں
پھرتے ہیں جگر چاک، جنوں کیش یگانے
اب بھی ہیں وہی کوچۂ دلدار کی رسمیں
جز داغِ وفا کچھ نہ ملا کوئے ستم سے
بہتات تھی ہر جنس کی بازارِ ہوس میں
نفرت بہ الفت ہے، عداوت بھری قربت
مقصد کے لیے قول تو اغراض کی قسمیں
مدت سے نگاہوں میں وہی نقش ہے اختر
غلطاں ہے سماعت اسی آواز کے رس میں​

اختر ضیائی

No comments:

Post a Comment