خنجر سے سوا کاٹ ہے اب تارِ نفس میں
مرنا مِرے بس میں ہے نہ جینا مِرے بس میں
پھرتے ہیں جگر چاک، جنوں کیش یگانے
اب بھی ہیں وہی کوچۂ دلدار کی رسمیں
جز داغِ وفا کچھ نہ ملا کوئے ستم سے
نفرت بہ الفت ہے، عداوت بھری قربت
مقصد کے لیے قول تو اغراض کی قسمیں
مدت سے نگاہوں میں وہی نقش ہے اختر
غلطاں ہے سماعت اسی آواز کے رس میں
اختر ضیائی
No comments:
Post a Comment