مل کر وہ اتفاق سے کیا کام کر گئی
”دل سے تِری نگاہ جگر تک اتر گئی“
آ کر ہوا کے جھونکے میں جانے کدھر گئی
مجھ کو رہی تلاش، جہاں تک نظر گئی
تن من جلا نفاق سے بھٹی میں ہجر کی
وہ آئی بھی تو دیکھ کے بندے کو ڈر گئی
یوں تو صدا بہ صحرا رہے نامرادِ عشق
دل سے نکل کے بات بھی تا بحر و بر گئی
کیا وقت آج آ کے پڑا ہے خدا گواہ
اب احتیاطِ زندگئ خیر و شر گئی
رہتے تھے ایک دور میں پا بہ رقاب ہم
اب شوق و ذوقِ لذتِ حسنِ سفر گئی
آتش کدہ بناؤ گے کب تک یہ بستیاں
کل گر تمہارے محلوں میں یہ آگ در گئی
نفرت، نفاق اور تعصب کے ہادیو
انسانیت کی آبرو کیا آج مر گئی؟
رشوت کا اور اہلِ خوشامد کا دور ہے
اب مرتبہ شناسائیِ اہلِ ہنر گئی
گلزار دشمنانِ محبت کو دو جتا
مظلوم کی صدا جو فلک سے گزر گئی
گلزار دہلوی
No comments:
Post a Comment