Friday 12 June 2020

تارے جو کبھی اشک فشانی سے نکلتے

تارے جو کبھی اشک فشانی سے نکلتے
ہم چاند اٹھائے ہوئے پانی سے نکلتے
خاموش سہی، مرکزی کردار تو ہم تھے
پھر کیسے بھلا تیری کہانی سے نکلتے
مہلت ہی نہ دی گردشِ افلاک نے ہم کو
کیا سلسلۂ نقل مکانی سے نکلتے
اک عمر لگی تیری کشادہ نظری میں
اس تنگئ داماں کو گِرانی سے نکلتے
بس ایک ہی موسم کا تسلسل ہے یہ دنیا
کیا ہجر زدہ خواب جوانی سے نکلتے
وہ وقت بھی گزرا ہے کہ دیکھا نہیں تم نے
صحراؤں کو دریا کی روانی سے نکلتے
شاید کہ سلیم امن کی صورت نظر آتی
ہم لوگ اگر شعلہ بیانی سے نکلتے

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment