Friday, 12 June 2020

صبح منسوخ ہوئی شب کے اشارے نہ گئے

صبح منسوخ ہوئی شب کے اشارے نہ گئے
اور ہم لوگ صلیبوں سے اتارے نہ گئے
جانے کیا سانحہ گزرا ہے پسِ شہرِ مراد
لوگ موجود تھے، اور نام پکارے نہ گئے
کیا کہیں کیسے وہ تنہائی کے موسم تھے کہ جو
تم سے جھیلے نہ گئے، ہم سے گزارے نہ گئے
اپنے ہی پاؤں چلے اپنے ہی سائے میں رہے
ہم جہاں تک گئے اوروں کے سہارے نہ گئے
کس کی پہچان کریں، ہم کسے مجرم سمجھیں
اصل چہرے تو نظروں سے گزارے نہ گئے
اک اچٹتی سی نگاہ چاند پہ ڈالی تھی سلیم
آج تک آنکھ کی دہلیز سے تارے نہ گئے

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment