Friday 12 June 2020

لہجہ و لفظ کو اک ساتھ بدل سکتا ہوں

لہجہ و لفظ کو اک ساتھ بدل سکتا ہوں
بات کرتے ہوئے میں بات بدل سکتا ہوں
اٹھ بھی سکتا ہے کبھی میرا یقیں تجھ پر سے
میں رخِ قبلۂ حاجات بدل سکتا ہوں
ابنِ آدم ہوں، مِرا کوئی بھروسہ بھی نہیں
چند سِکوں کے عوض ذات بدل سکتا ہوں
کیا میں کر سکتا ہوں سورج کو اندھیرے کے سپرد
کیا میں اس دن سے کوئی رات بدل سکتا ہوں
اختیار اس نے مجھے اِتنا دیا ہی کب ہے
میں کہاں شہر کے حالات بدل سکتا ہوں
وہ سمجھتا ہے کہ بے چین ہوں ملنے کے لیے
اور میں وقتِ ملاقات بدل سکتا ہوں
وہ بدلتا ہے اگر چاک پہ صورت اپنی
میں بھی یہ حرف و حکایات بدل سکتا ہوں
مجھ کو تصویر بنانے میں رعایت جو ملے
نقشۂ ارض و سماوات بدل سکتا ہوں
تلملایا تو میں ایسے ہوں پرانے پن پر
جیسے فرسودہ روایات بدل سکتا ہوں
آزر اس فن سے اسے کچھ نہیں لینا دینا
یعنی میں اپنی کرامات بدل سکتا ہوں

دلاور علی آزر

1 comment: