Friday 12 June 2020

آزر رہا ہے تیشہ مرے خاندان میں

آزر رہا ہے تیشہ مِرے خاندان میں
پیکر دکھائی دیتے ہیں مجھ کو چٹان میں
سب اپنے اپنے طاق میں تھرّا کے رہ گئے
کچھ تو کہا ہوا نے چراغوں کے کان میں
میں اپنی جستجو میں یہاں تک پہنچ گیا
اب آئینہ ہی رہ گیا ہے درمیان میں
منظر بھٹک رہے تھے در و بام کے قریب
میں سو رہا تھا خواب کے پچھلے مکان میں
لذّت ملی ہے مجھ کو اذیت میں اس لیے
احساس کھینچنا تھا بدن کی کمان میں
نکلی نہیں ہے دل سے مِرے بددعا کبھی
رکھے خدا عدو کو بھی اپنی امان میں
آؔزر اسی کو لوگ نہ کہتے ہوں آفتاب
اک داغ سا چمکتا ہے جو آسمان میں

دلاور علی آزر

No comments:

Post a Comment