Wednesday 10 June 2020

یہ کھیل ہو گا نہیں دوبارہ

یہ زندگی
آج جو تمہارے
بدن کی چھوٹی بڑی نسوں میں
مچل رہی ہے
تمہارے پیروں سے چل رہی ہے
تمہاری آواز میں گلے سے نکل رہی ہے
تمہارے لفظوں میں ڈھل رہی ہے

یہ زندگی
جانے کتنی صدیوں سے
یوں ہی شکلیں بدل رہی ہے
بدلتی شکلوں
بدلتے جسموں میں
چلتے پھرتے یہ اک سہارا
جو اس گھڑی
نام ہے تمہارا
اسی سے ساری چہل پہل ہے
اسی سے روشن ہے ہر نظارہ
ستارے توڑو یا گھر بساؤ
قلم اٹھاؤ یا سر جھکاؤ
تمہاری آنکھوں کی روشنی تک
ہے کھیل سارا
یہ کھیل ہو گا نہیں دوبارہ
یہ کھیل ہو گا نہیں دوبارہ

ندا فاضلی

No comments:

Post a Comment