کیا کیا نواحِ چشم کی رعنائیاں گئیں
موسم گیا، گلاب گئے، تتلیاں گئیں
جھوٹی سیاہیوں سے ہیں شجرے لکھے ہوئے
اب کے حسب نسب کی بھی سچائیاں گئیں
کس ذہن سے یہ سارے محاذوں پہ جنگ تھی
کرنے کو روشنی کے تعاقب کا تجربہ
کچھ دور میرے ساتھ بھی پرچھائیاں گئیں
آگے تو بے چراغ گھروں کا ہے سلسلہ
میرے یہاں سے جانے کہاں آندھیاں گئیں
اظہر مِری غزل کے سبب اب کے شہر میں
کتنی نئی پرانی شناسائیاں گئیں
اظہر عنایتی
No comments:
Post a Comment