خود سے نکلوں بھی تو رستہ نہیں آسان مِرا
میری سوچیں ہیں گھنی خوف ہے گنجان مرا
ہے کسی اور سمے پر گزر اوقات مِری
دن خسارہ ہے مجھے رات ہے نقصان مرا
میرا تہذیب و تمدن ہے یہ وحشت میری
میں کسی اور ہی عالم کا مکیں ہوں پیارے
میرے جنگل کی طرح گھر بھی ہے سنسان مرا
دن نکلتے ہی مِرے خواب بکھر جاتے ہیں
روز گرتا ہے اسی فرش پہ گلدان مرا
مجھ کو جس ناؤ میں آنا تھا کہیں ڈوب گئی
خواب ہے نیند کے ساحل پہ پریشان مرا
اکبر معصوم
No comments:
Post a Comment