بھٹک رہے ہیں مسافر ستارہ کوئی نہیں
بھرے جہان میں اپنا، ہمارا کوئی نہیں
پلٹ پلٹ کے مسافر نے بارہا دیکھا
سبھی نے ہاتھ ہلائے، پکارا کوئی نہیں
میں اپنی جان لگا کر خرید لوں، تو ہو
مِری طرف سے مِرے دوست اب ہوئے آزاد
ہے ان کا فائدہ، میرا خسارہ کوئی نہیں
ہوں بے امان، بھرے شہر میں، سو پوچھتا ہوں
کوئی سہارا ملے گا؟ سہارا کوئی نہیں
ہیں ساتھ ساتھ مگر اپنے اپنے خول میں بند
نفس نفس ہے، کسی کو گوارا کوئی نہیں
وہ صرف دوست نہیں تھا ہمارا، آئینہ تھا
بغیر اس کے ہمارا گزارہ کوئی نہیں
ہر ایک لحظہ بدلتا ہے منظرِ ہستی
جو ایک بار ہے سعدی دوبارہ کوئی نہیں
رضا اللہ سعدی
No comments:
Post a Comment