Wednesday, 2 September 2020

تو خوش نہیں ہے مگر میرے روبرو خوش رہ

تُو خوش نہیں ہے، مگر میرے روبرو، خوش رہ
مِرے گلاب، مِرے خوابِ مشکبو، خوش رہ
میں جل رہا تھا کہ تُو نے مجھے جلایا تھا
مجھے بجھا کے اگر خوش ہُوا ہے تُو، خوش رہ
ہم ایسے تیر جو اہداف تک پہنچتے نہیں
ہمارا کیا ہے، مگر تُو ہے سرخرو، خوش رہ
تجھے یہ کس نے کہا ہے ہماری پِیاس بجھا
تُو گنگناتی رہ، بہتی رہ آبجُو، خوش رہ
مجھے بھلاد ے کہ ایسے بھی میں تو تھا ہی نہیں
تُو جیسے رہتا تھا ویسے ہی ہوبہو، خوش رہ
یہ وقت ہے یہ کسی کا سگا نہیں ہوتا
مِری رفیق، مِری شاخِ بے نمو، خوش رہ
کسی کے کہنے پہ تُو میرے پاس مت آنا
میں ترک کر بھی چکا تیری جستجو، خوش رہ
فریبِ آئینہ خانہ ہے، اور مجھے سعدی
ہزار عکس یہ کہتے ہیں، خوبرو خوش رہ

رضا اللہ سعدی

No comments:

Post a Comment