ایک سا چہرہ ایک سی حیرت ایک ہوا خُشکابوں کی
کاریزوں کی پِیلاہٹ، اور کچی نیند سرابوں کی
دِیواروں کو چاٹ رہی تھی سبزی مائل ایک بَلا
دروازے مبہوت تھے تصویروں میں پاک کتابوں کی
جلادوں کی قہرآلود آنکھوں کی اوٹ میں شفقت ہو
اونچے کوہساروں سے بہتا پانی پتھر بن جائے
مٹی ہو جائیں آوازیں جَل کی، ساز ربابوں کی
سانس میں تیرا غم نہ دہکے، لَو بن کر کب ممکن ہے؟
مجھ سے میرا سُر چھن جائے کیا اوقات شرابوں کی
نوشین قمبرانی
No comments:
Post a Comment