Axiom of Evil
(بدی کا ترانہ)
میں اپنی موت سے باہر کھڑی اک اور دنیا ہوں
مِرے زہریلے پانی کے سمندر میں
خداؤں کے جہاز اندھے کھڑے ہیں
مِرے صحراؤں میں کوڑوں کی ضربوں سے
مِرے چہرے پہ دو جانب
الگ سمتوں میں سانپوں، چھپکلیوں کے
سُکڑتے بل ملیں گے
خرابوں میں مِرے
دیوانگی کے لشکروں کے دل ملیں گے
مجھے چُومو
مِرے ہونٹوں پہ شاخیں ہیں
شاخوں پر درندہ صفت چڑیائیں
خونی فاختائیں، جھولتی ہیں
کھیلتی ہیں
مِری نہ مرنے والی اور بھیانک ذات کے جنگل کی نبضوں میں
تمہارا وقت آنکھیں میچتا ہے
مِرے ماتھے پہ انسانوں کا بختِ مہرباں
دَم توڑتا ہے
مِری بدصورتی کے دن اٹل ہیں
نوشین قمبرانی
No comments:
Post a Comment