Tuesday, 1 September 2020

اپنی نظریں جھکائے رکھتی ہے

اپنی نظریں جھکائے رکھتی ہے
درد سارا چھپائے رکھتی ہے
تیری یادوں کے نرم بستر پر
رات آنکھیں جگائے رکھتی ہے
ایک خوشبو کی ہلکی آہٹ بھی
گھر میں آفت مچائے رکھتی ہے
راکھ ہو کر بھی عشق کی لذت
شعلہ خود میں دبائے رکھتی ہے
زندگی کی ادھوری خواہش بھی
ربط تجھ سے بنائے رکھتی ہے
بے سبب آس کی کرن دل میں
آرزوئیں جلائے رکھتی ہے
کتنی سادہ مزاج لڑکی ہے
رنگ سارے چھپائے رکھتی ہے

راشد فضلی

No comments:

Post a Comment