دل میں جو کچھ ہے بتاؤں کیسے
تجھ کو، تجھ سے ہی چھپاؤں کیسے
وہ یقیں ہو کے گماں لگتا ہے
اس کو آنکھوں میں بساؤں کیسے
زندگی دردِ مجسم ہے، مگر
ہر قدم درد بڑھاتی جائے
ایسی دنیا سے نبھاؤں کیسے
آگ لگنے سے دھواں اٹھتا ہے
دل کو جلنے سے بچاؤں کیسے
راستے میں جسے کھویا تھا کبھی
اپنے گھر اس کو بلاؤں کیسے
کتنی یادوں کا پری خانہ ہے
اپنے اس گھر کو جلاؤں کیسے
راشد فضلی
No comments:
Post a Comment