Tuesday, 1 September 2020

شکستہ لشکروں کی تشنگی ہوں

شکستہ لشکروں کی تشنگی ہوں
میں صحراؤں کے ساحل پر پڑی ہوں
ہمیشہ جو رہے، وہ نِیستی ہوں
بقا کے دائروں میں گھومتی ہوں
تِرے سینے میِں ہوں محوِ سفر میں
خلا ہوں اور تجھ میں پھیلتی ہوں
میں اس لمحے سے پہلے جی اٹھی تھی
میں اس لمحے سے پہلے مر چکی ہوں
یا ہوں آواز وحشی شورِشوں کی
یا ہستِ بیکراں کی خامشی ہوں
یا نخلستان جیسی مرگ ہوں میں
یا خون اور پِیپ پیتی زندگی ہوں

نوشین قمبرانی

No comments:

Post a Comment