شکستہ لشکروں کی تشنگی ہوں
میں صحراؤں کے ساحل پر پڑی ہوں
ہمیشہ جو رہے، وہ نِیستی ہوں
بقا کے دائروں میں گھومتی ہوں
تِرے سینے میِں ہوں محوِ سفر میں
میں اس لمحے سے پہلے جی اٹھی تھی
میں اس لمحے سے پہلے مر چکی ہوں
یا ہوں آواز وحشی شورِشوں کی
یا ہستِ بیکراں کی خامشی ہوں
یا نخلستان جیسی مرگ ہوں میں
یا خون اور پِیپ پیتی زندگی ہوں
نوشین قمبرانی
No comments:
Post a Comment