رہِ حیات کی تنہائیوں کو کیا کہیے
ہجومِ شوق کی رسوائیوں کو کیا کہیے
مِرے وجود کا بھی دور تک مقام نہیں
تِرے خیال کی گہرائیوں کو کیا کہیے
غموں کی اوٹ سے بھی ہو سکیں نہ تر پلکیں
شرارِ زیست کی اک جست ہے بہت لیکن
نفس کی مرحلہ پیمائیوں کو کیا کہیے
تِرے جمال کو چھُو کر نکل رہی ہے سحر
طلوعِ مہر کی رعنائیوں کو کیا کہیے
شہاب دہلوی
No comments:
Post a Comment