محفل میں امیدوں کا گزر ہے بھی نہیں بھی
دھرتی پہ ستاروں کی نظر ہے بھی نہیں بھی
اک بات ابھی رات کے پردے میں پڑی ہے
اک شخص طلبگار سحر ہے بھی نہیں بھی
اک آگ جلی رہتی ہے اک آگ بجھی سی
جز دل کے کوئی شکل ہی کاغذ پہ نہ اتری
گویا مِرے ہاتھوں میں ہنر ہے بھی نہیں بھی
کچھ ابر تو چھاتے ہیں برستے نہیں، لیکن
حالات کی موسم کو خبر ہے بھی نہیں بھی
سوچو تو یہی دشت ہے منزل بھی یہی ہے
ڈھونڈھو تو یہاں راہگزر ہے بھی نہیں بھی
زندوں میں گنوں خود کو کہ مُردوں میں گنوں میں
اے یار مِرے کاندھے پہ سر ہے بھی نہیں بھی
مظفر ابدالی
No comments:
Post a Comment