Thursday, 3 September 2020

محفل میں امیدوں کا گزر ہے بھی نہیں بھی

محفل میں امیدوں کا گزر ہے بھی نہیں بھی
دھرتی پہ ستاروں کی نظر ہے بھی نہیں بھی
اک بات ابھی رات کے پردے میں پڑی ہے
اک شخص طلبگار سحر ہے بھی نہیں بھی
اک آگ جلی رہتی ہے اک آگ بجھی سی
یارو مِرے سینے میں جگر ہے بھی نہیں بھی
جز دل کے کوئی شکل ہی کاغذ پہ نہ اتری
گویا مِرے ہاتھوں میں ہنر ہے بھی نہیں بھی
کچھ ابر تو چھاتے ہیں برستے نہیں، لیکن
حالات کی موسم کو خبر ہے بھی نہیں بھی
سوچو تو یہی دشت ہے منزل بھی یہی ہے
ڈھونڈھو تو یہاں راہگزر ہے بھی نہیں بھی
زندوں میں گنوں خود کو کہ مُردوں میں گنوں میں
اے یار مِرے کاندھے پہ سر ہے بھی نہیں بھی

مظفر ابدالی

No comments:

Post a Comment