سفر دشوار، اور رستہ بہت ہے
سو گم ہونے کا بھی خدشہ بہت ہے
تجھے رخصت کروں گا ہنس کے بیٹی
رلانے کو تِری 🎎 گڑیا بہت ہے
یہ انسانوں کی بستی ہے کہ جنگل
جسے دیکھو وہی لڑتا بہت ہے
نہ ہم برگد نہ ہم پیپل ہیں پھر بھی
وہی اندر سے نکلا ہے منافق
جو چہرے سے حسین لگتا بہت ہے
یہ کن سانپوں میں خالد آ گیا ہوں
کہ جس سے بھی ملوں ڈستا بہت ہے
خالد سجاد احمد
No comments:
Post a Comment