دستکیں دے کے یہ اندازہ لگایا جائے
کیسے دیوار میں دروازہ لگایا جائے
خوب تر جس کے خد و خال نہیں ہو سکتے
ایسے پتھر پہ بھی کیا غازہ لگایا جائے
اب ہمیں راس نہیں کوئی پرانی تہمت
کیا ضروری ہے کہ روداد سنائیں ساری
اشک سے درد کا اندازہ لگایا جائے
وہ مِرے زخم حسین دیکھ کے خوش ہوتا ہے
جس جگہ چوٹ لگے، غازہ لگایا جائے
دل کی تنہائی کہیں مار نہ ڈالے خالد
خامشی میں کوئی آوازہ لگایا جائے
خالد سجاد احمد
No comments:
Post a Comment