Thursday, 3 September 2020

دستکیں دے کے یہ اندازہ لگایا جائے

دستکیں دے کے یہ اندازہ لگایا جائے
کیسے دیوار میں دروازہ لگایا جائے
خوب تر جس کے خد و خال نہیں ہو سکتے
ایسے پتھر پہ بھی کیا غازہ لگایا جائے
اب ہمیں راس نہیں کوئی پرانی تہمت
ہم پہ الزام کوئی تازہ لگایا جائے
کیا ضروری ہے کہ روداد سنائیں ساری
اشک سے درد کا اندازہ لگایا جائے
وہ مِرے زخم حسین دیکھ کے خوش ہوتا ہے
جس جگہ چوٹ لگے، غازہ لگایا جائے
دل کی تنہائی کہیں مار نہ ڈالے خالد
خامشی میں کوئی آوازہ لگایا جائے

خالد سجاد احمد

No comments:

Post a Comment