Thursday, 3 September 2020

عذاب اک ہر گھڑی ہے ساتھ اپنے

عذاب اک ہر گھڑی ہے ساتھ اپنے
مسلسل بے گھری ہے ساتھ اپنے
حصارِ تیرگی ہے ساتھ اپنے
مگر اک روشنی ہے ساتھ اپنے
دھنک یوں ہی نہیں آنکھوں میں اتری
افق کے دوستی ہے ہے ساتھ اپنے
مجھے ہیں یاد سارے لوگ اب بھی
وہاں کی ہر گلی ہے ساتھ اپنے
اکیلا راکھ میں ہی تو نہیں ہوں
کہ شب بھی تو جلی ہے ساتھ اپنے
ہمیں تو راستے میں سب نے چھوڑا
فقط اک شاعری ہے ساتھ اپنے

سلیم فگار

No comments:

Post a Comment