Thursday, 3 September 2020

بے نیازی سے مدارات سے ڈر لگتا ہے

بے نیازی سے مدارات سے ڈر لگتا ہے
جانے کیا بات ہے ہر بات سے ڈر لگتا ہے
ساغرِ بادۂ 🍷 گلرنگ تو کچھ دور نہیں
نِگہِ پیرِ خرابات سے ڈر لگتا ہے👀
دل پہ کھائی ہوئی اک چوٹ ابھر آتی ہے
تیرے دیوانے کو برسات سے ڈر لگتا ہے
اے دل💖 افسانۂ آغاز وفا رہنے دے
مجھ کو بیتے ہوۓ لمحات سے ڈر لگتا ہے
میں جو اس بزم میں جاتا نہیں اشعر مجھ کو
اپنے سہمے ہوۓ جذبات سے ڈر لگتا ہے

حبیب اشعر دہلوی

No comments:

Post a Comment