Thursday, 3 September 2020

راستے میں چناب آئیں بیلے کہ تھل راستہ مت بدل

راستے میں چناب آئیں بیلے کہ تھل، راستہ مت بدل
میں تِرے ساتھ ہوں آ مِرے ساتھ چل، راستہ مت بدل
🎕ہمسفر تُو نظر عشق کی بارگاہِ مقدس پہ رکھ🎕
کٹ گئے پاؤں تو جائیں گے سر کے بَل، راستہ مت بدل
آبلے تو سفر کی شروعات ہیں، ان کو خود پھوڑ دے
تب کہیں جا کے دُکھ خون میں ہو گا حل، راستہ مت بدل
یہ جو گِرنا سنبھلنا ہے اس میں ندامت کی کیا بات ہے
اپنے پاؤں پہ گِر اپنے ہاتھوں سنبھل، راستہ مت بدل
خاک پر جھلملا، اپنی پلکوں پہ تارے پرو، کھل کے رو
گرد پوروں سے چُن اور چہرے پہ مَل، راستہ مت بدل
رات بیمار اور راہگیروں کی دشمن ہے، آ یوں کریں
ڈھیروں باتیں کریں تاکہ شب جائے ڈھل، راستہ مت بدل
دن سلگنے لگے تو خود اپنے ہی سائے کو چھتری بنا
رات آئے تو خود اپنے خیمے میں جل، راستہ مت بدل
کیا عجب ہے کہ اگلے کسی موڑ پر ہو بشارت کوئی
خود پہ کچھ جبر کر، اک گھڑی ایک پل، راستہ مت بدل

واحد اعجاز میر

No comments:

Post a Comment