تعبیر
ان گنت کہکشاؤں کے جُھرمٹ نے بے انتہا دائرے بُن دئیے
اور پاتال میں جذب رنگوں نے اُگلے کئی ہلہلے
اپنے تابوت میں خود سے ہیبت زدہ، جبر کی زندگانی میں جیتا رہا
یوں جمالِ سحر، زرد سورج کے ہاتھوں میں گِروی رہا
کسمساتے بدن کے جنوبی طرف تازیانوں کی برسات جاری رہی
اور شمالی طرف سنگباری سے اُدھڑی ہوئی کھال پر
زندگی کی یہ تمثیل لکھی گئی
میں تو بس وقت کی جیل میں قید تھا
اور تصور میں تھی لہلہاتی ہوئی خوشنما زندگی
یعنی شیندور کی بُھربُھری گھاس پہ بیٹھ کے
میچ پولو کے دیکھا کروں
اور قہوہ کی چُسکی لگاتے ہوئے سارتر کو پڑھوں
قہقہوں کے تموّج میں رقصاں رہیں
نُطقِ تخلیق کے بیکراں زمزمے
پر تصوّر تو آخر تصوّر ہی ہے
دم بہ دم پھیلتے رقص کرتے خیالات کے سلسلے
ساتھ چلتے ہوئے یک بہ یک رُک گئے
چار سُو گویا پھر ایک دیوار تھی
سانس لینے کی کوشش بھی بے کار تھی
عرفان شہود
No comments:
Post a Comment