کیا بتاؤں کہ کس مکان سے ہوں
میں زمیں پر بھی آسمان سے ہوں
عشق میں کیسے جھوٹ بولوں میں
روزہ رکھی ہوئی زبان سے ہوں
تُو اندھیرے میں دیکھ حُسن مِرا
میں چراغوں کے خاندان سے ہوں
اے شجر! مجھ پہ اتنا طنز نہ کر
میں کہاں تیرے سائبان سے ہوں
جس جگہ روز قتل ہوتے ہیں
میں اسی شہرِ بے امان سے ہوں
دیکھیۓ، کیا سفر کا ہو انجام
راہ مشکل ہے اور تھکان سے ہوں
تُو مجھے کتنا توڑ سکتا ہے
آدمی ہوں مگر چٹان سے ہوں
خالد سجاد احمد
No comments:
Post a Comment