Sunday, 23 January 2022

کیا بتاؤں کہ کس مکان سے ہوں

 کیا بتاؤں کہ کس مکان سے ہوں

میں زمیں پر بھی آسمان سے ہوں

عشق میں کیسے جھوٹ بولوں میں

روزہ رکھی ہوئی زبان سے ہوں

تُو اندھیرے میں دیکھ حُسن مِرا

میں چراغوں کے خاندان سے ہوں

اے شجر! مجھ پہ اتنا طنز نہ کر

میں کہاں تیرے سائبان سے ہوں

جس جگہ روز قتل ہوتے ہیں

میں اسی شہرِ بے امان سے ہوں

دیکھیۓ، کیا سفر کا ہو انجام

راہ مشکل ہے اور تھکان سے ہوں

تُو مجھے کتنا توڑ سکتا ہے

آدمی ہوں مگر چٹان سے ہوں


خالد سجاد احمد

No comments:

Post a Comment