پہرے لگے ہوئے کہیں جالے لگے ہوئے
کُچھ کہہ رہے تھے شہر میں تالے لگے ہوئے
ہاتھوں سمیت توڑے گئے تھے مِرے گلاس
چھینے گئے تھے منہ سے نوالے لگے ہوئے
پونچھے تھے ہم نے پاؤں کے چھالوں سے خوں کے اشک
آنکھوں سے، رہ کے خار نکالے لگے ہوئے
جاتے کہاں کہ چاروں طرف تھی مہیب رات
تاریکیوں کے ہاتھ اجالے لگے ہوئے
راحت اجڑ گیا وہ خزاؤں سے باغِ خواب
جس میں تھے پھول پات نرالے لگے ہوئے
راحت سرحدی
No comments:
Post a Comment