Friday 9 October 2015

لفظ تیری یاد کے سب بے صدا کر آئے ہیں

لفظ  تیری یاد کے سب بے صدا کر آئے ہیں
سارے منظر آئینوں سے خود مِٹا کر آئے ہیں
ایک لمحے میں کئی برسوں کے ناطے توڑ کر
سوچتے ہیں، اپنے ہاتھوں سے یہ کیا کر آئے ہیں
راستے تو کھو چکے تھے اپنی ہر پہچان  تک
ہم جنازے منزلوں  کے خود اٹھا کر آئے ہیں
سارے رشتے جھوٹ ہیں، سارے تعلق پُرفریب
پھر بھی سب قائم رہیں، یہ بد دعا کر آئے ہیں
ہر چھلکتے اشک میں تصویر جھلکے گی تِری
نقش  پانی پر تِرا اَن مِٹ بنا کر آئے ہیں
موت سے پہلے جہاں میں چند سانسوں کا عذاب
زندگی! جو  قرض تیرا تھا، ادا  کر آئے ہیں
سارے شکوے بھول کر آؤ مِلیں حیدر  انہیں
وہ گئے لمحوں کو پھر واپس بلا کر آئے  ہیں  

حیدر قریشی

No comments:

Post a Comment