Friday 9 October 2015

چھوڑ گئے سب تجھ کو تیری غزلوں والے لوگ

چھوڑ گئے سب تجھ کو تیری غزلوں والے لوگ
میرے شاعر سب کے دُکھ اب تنہا بیٹھا بھوگ
عشق اور نوکری مِل کے دونوں چُوس گئے ہیں تجھ کو
تُو تو بس اب ایسے ہے جیسے گنّے کا پھوک
اس سے شکوہ کرنے کا تو حق ہی نہیں بنتا ہے
پتھر کو معلوم ہو کیسے آئینے کا روگ
اپنے ارمانوں کو خود ہی کفناؤ، دفناؤ
خود ہی من کو قتل کرو اور خود ہی مناؤ سوگ
میں کوئی رام نہ گوتم، حیدر اِک شاعر آوارہ
پھر یہ کیسی خواہش ہے جنگل میں لے لوں جوگ

حیدر قریشی

No comments:

Post a Comment