Friday 9 October 2015

وقت پڑا تو پھیر لیں نظریں آس تھی جن آقاؤں سے

وقت پڑا تو پھیر لیں نظریں آس تھی جن آقاؤں سے
ہم نے کرم کی بھیک یہ پائی اپنے کرم فرماؤں سے
دُکھ سُکھ میں جو کام نہ آئے جس کا سایہ ساتھ نہ دے
میری نظر میں دُھوپ بھلی اس پیپل کی چھاؤں سے
خوشحالی کے دور میں یارو! یہ کیسی خوشحالی ہے
بچے روٹی مانگ رہے ہیں، بھُوکی پیاسی ماؤں سے
ظُلم کے ایسے دور میں جبکہ بھائی بن کر لوٹیں سُہاگ
بیواؤں کی درد کہانی کون سُنے بیواؤں سے
ساحل ساحل پھرنا تیرا پُرنمؔ اچھی بات نہیں
آنسو پی کر پیاس بُجھا لے آس نہ رکھ دریاؤں سے

پرنم الہ آبادی

No comments:

Post a Comment