دامن میں آنسوؤں کا ذخیرہ نہ کر ابھی
یہ صبر کا مقام ہے، گِریہ نہ کر ابھی
جس کی سخاوتوں کی زمانے میں دھوم ہے
وہ ہاتھ سو گیا ہے، تقاضا نہ کر ابھی
نظریں جلا کے دیکھ مناظر کی آگ میں
اسرارِ کائنات سے پردہ نہ کر ابھی
یہ خامشی کا زہر نَسوں میں اتر نہ جائے
آواز کی شکست گوارا نہ کر ابھی
دنیا پہ اپنے علم کی پرچھائیاں نہ ڈال
اے روشنی فروش، اندھیرا نہ کر ابھی
یہ صبر کا مقام ہے، گِریہ نہ کر ابھی
جس کی سخاوتوں کی زمانے میں دھوم ہے
وہ ہاتھ سو گیا ہے، تقاضا نہ کر ابھی
نظریں جلا کے دیکھ مناظر کی آگ میں
اسرارِ کائنات سے پردہ نہ کر ابھی
یہ خامشی کا زہر نَسوں میں اتر نہ جائے
آواز کی شکست گوارا نہ کر ابھی
دنیا پہ اپنے علم کی پرچھائیاں نہ ڈال
اے روشنی فروش، اندھیرا نہ کر ابھی
ساقی فاروقی
No comments:
Post a Comment