Tuesday, 16 March 2021

ایسا عشق میری جان نہیں کر سکتا

 ایسا عشق میری جان نہیں کر سکتا

نہیں، میں یہ احسان نہیں کر سکتا

عشق رُوکھا نہیں، نرم لہجوں کا ہے

یہ مجھ سا شعلہ بیان نہیں کر سکتا

تُو چاہتا ہے کہ پانی میں پتھر ماروں

میں کشتی والوں کو پریشان نہیں کر سکتا

حسن والی! آ بیٹھ تجھے غزل سناؤں

ایسا تحفہ کوئی مہربان نہیں کر سکتا

میں ڈُوب جاؤں گا کشتی نہیں بناؤں گا

میں کسی پیڑ کا نقصان نہیں کر سکتا

صبر کر، اور دیکھ ہے ملتا کیا کیا

مصر والے! تجھے ویران نہیں کر سکتا

ایک پھول سی بچی کو روندا تم نے

اتنا گھٹیا تو شیطان نہیں کر سکتا

میں تیری ہار میں ہارا ہوں اے لڑکی

ایسا اچھا کوئی قدردان نہیں کر سکتا

تُو میرا عشق ہے، مگر حد میں رہ

میں کسی بشر کو بھگوان نہیں کر سکتا

عشق سودا ہے، سنبھلنا نہیں تم سے تیمور

تجھ سا بے چارہ، شُتربان نہیں کر سکتا


تیمور مرزا

No comments:

Post a Comment