زمانہ یوں ہی مجھے روز آزماتا رہا
کبھی رلاتا رہا اور کبھی ہنساتا رہا
انہیں تو آنکھ ملانے کا بھی شعور نہیں
تمام عمر جنہیں آنکھ پر بٹھاتا رہا
یہ ضبطِ غم ہی مِرا حُسنِ پارسائی ہے
کہ دل میں روتا رہا اور مسکراتا رہا
زمانہ یوں ہی مجھے روز آزماتا رہا
کبھی رلاتا رہا اور کبھی ہنساتا رہا
انہیں تو آنکھ ملانے کا بھی شعور نہیں
تمام عمر جنہیں آنکھ پر بٹھاتا رہا
یہ ضبطِ غم ہی مِرا حُسنِ پارسائی ہے
کہ دل میں روتا رہا اور مسکراتا رہا
وہی میری نا مرادی، وہی گردش زمانہ
مِری زندگی تصور مِری عِشرتیں فسانہ
نہ حضوریوں کی خواہش نہ وصال کی تمنا
مجھے اب بھی ہے تعارف وہی ان سے غائبانہ
جو تجھے خیال ہوتا یہ مِرا نہ حال ہوتا
نہ تِری نگاہ بدلی، نہ بدل سکا زمانہ
لہو رواں ہے تو نبضیں رکی ہوئی کیوں ہیں
ہوا چلی ہے تو سانسیں گھٹی ہوئی کیوں ہیں
بلندیوں پہ اگر کوئی جا نہیں سکتا
تو پھر پہاڑ پہ راہیں بنی ہوئی کیوں ہیں
ابھی تو پاؤں سے کانٹے نکالنے ہیں مجھے
نظر کے سامنے کلیاں پڑی ہوئی کیوں ہیں
درد دے داغ دے ہر زخم کو گہرائی دے
کون کہتا ہے کہ درماں دے، شکیبائی دے
مِری خاطر نہ بدل اپنی عطا کا انداز
سب کی توقیر بڑھا دے، مجھے رُسوائی دے
زخم کو دیکھ سکوں، عکس کو پہچان سکوں
آئینے سے مجھے اتنی تو شناسائی دے
عنوان بدل گئے ہیں، فسانے بدل گئے
تُو بھی بدل کہ اب تو زمانے بدل گئے
دل میں نہ رکھ دبا کے تمنّا کی بجلیوں
اکثر انہیں سے آئینہ خانے بدل گئے
ہم سے محبتوں کی کہانی نہ پوچھیے
سب تیر چل چکے ہیں تو نشانے بدل گئے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
صدقے میں مصطفٰیؐ کے منور ہیں اس لیے
تکتے ہیں مہر و ماہ شہ دو جہاں کا رخ
جس جا فرشتے خم بجبیں رہتے ہیں سدا
میں نے بھی کر لیا ہے اسی آستاں کا رخ
حسرت ہو دیکھنے کی جسے خلد کو یہاں
جلدی سے کر لے سنگِ درِ جان جاں کا رخ
جو باندھ لے نظر کو وہ زنجیر چاہیے
اس نے کہا کہ آپ کی تصویر چاہیے
اس کے عمل نے برف سا مجھ کو ہے کر دیا
ردِعمل میں آگ سی تاثیر چاہیے
پھر چھیڑ داستان وہی زلف یار کی
کچھ تو یہاں پہ باعثِ تاخیر چاہیے
شب زوال کو وہ انقلاب لکھتا رہا
ورق پہ آگ کے لفظِ گُلاب لکھتا رہا
جسے خرابئ گُلشن کا کچھ لحاظ نہیں
شکستہ گُل اسی آتش کو آب لکھتا رہا
خِرد میں گُل کے سمائی یہ کیسی بے نوری
کلامِ خیر کو وہ بس عتاب لکھتا رہا
خونچکاں حادثہ منظر پہ لکھا ہوتا ہے
نام مقتول کا خنجر پہ لکھا ہوتا ہے
جانتا ہوں کہ سدا نقش مٹاتی ہے ہوا
پھر بھی کچھ جیسے سمندر پہ لکھا ہوتا ہے
کس کی قُربت سے مُنور رہا شب بھر کمرہ
پُر شکن آپ کے بستر پہ لکھا ہوتا ہے
دل کی بربادی کا کیا برباد تھا برباد ہے
دیکھنے والو! بتاؤ، وہ نظر تو شاد ہے؟
زندگی کو ان پہ ہونا تھا تصدق، ہو گئی
لوگ اب سوچا کریں، آباد یا برباد ہے
تم مجھے بھولے ہوئے ہو لیکن اتنا تو بتاؤ
کوئی وعدہ یاد ہے، کوئی تسلی یاد ہے؟
سفر کے بیچ بدلتے رہے کئی موسم
ہمارے ساتھ بھی چلتے رہے کئی موسم
نہیں تھا ابر بھی کوئی جو آ کے چھا جاتا
بلا کی دھوپ میں جلتے رہے کئی موسم
چلی جو بادِ مخالف تو پھر ہوا یہ بھی
قریب آ کے بھی ٹلتے رہے کئی موسم
اک خواب میری آنکھ کا تعبیر ہوا ہے
جو پہلے ایک رنگ تھا تصویر ہوا ہے
لہجہ بھی آج نرم ہے، الفاظ مہرباں
لگتا ہے کوئی معاملہ گھمبیر ہوا ہے
تُو ہو تو خوشگوار نہ ہو تو اداس ہے
اب موسمِ دل بھی تیری جاگیر ہوا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
والیل کے صدقے سخن آرائی ہوئی ہے
لگتا ہے کہ رحمت کی گھٹا چھائی ہوئی ہے
حفاظ نے رمضان میں قران سنایا
یعنی تیرے اوصاف کی دہرائی ہوئی ہے
پہنے ہیں سراقہ نے شہنشاہ کے کنگن
محبوب نے جو بات بھی فرمائی، ہوئی ہے
یاد ماضی
تنہائیٔ دل جب بڑھتی ہے
جب یاس کی گہری تاریکی دنیائے دل پر چھاتی ہے
چپکے سے تِری یادوں کی کِرن
چلمن کو ہٹا کر آتی ہے
اور دل مِرا بہلاتی ہے
تم دُور ہوئی جونہی ہم سے
کس جگہ جاتا ہے اور کون سے در جاتا ہے
تیرے در سے جو پلٹ آئے کدھر جاتا ہے
منظر عام پہ آتا ہے تو ڈر جاتا ہے
اشک میرا مِرے اندر ہی بکھر جاتا ہے
آج وہ زخم کی تاثیر سے تر جاتا ہے
وہ جو کہتا تھا میاں زخم ہے بھر جاتا ہے
تباہی بستیوں کی ہے نگہبانوں سے وابستہ
گھروں کا رنج ویرانی ہے مہمانوں سے وابستہ
سفر قدموں سے وابستہ ہے، لیکن راستہ اپنا
گلستانوں سے وابستہ نہ ویرانوں سے وابستہ
صداقت بھی تو ہو جاتی ہے مقتول فریب آخر
حقیقت بھی تو ہو جاتی ہے افسانوں سے وابستہ
زخم تھوڑی سی خوشی دے کے چلے جاتے ہیں
خشک آنکھوں کو نمی دے کے چلے جاتے ہیں
روز آتے ہیں اجالے مِرے اندھے گھر میں
روز اک تیرہ شبی دے کے چلے جاتے ہیں
ان کرائے کے گھروں سے تو میں بے گھر اچھا
نت نئی دربدری دے کے چلے جاتے ہیں
ہم پیار کے پیاسے ہیں ہم پیار کے پیاسے ہیں
اصلی نہ سمجھ لینا چہروں پہ جو ہاسے ہیں
ہر عمر کے لوگوں کو شکوے ہیں زمانے سے
دادے ہیں کہ پوتے ہیں، نانے کہ نواسے ہیں
پوچھو نہ جوانوں کا؛ دن رات سلگتے ہیں
آنکھوں سے جھلکتے ہیں، سینوں میں جو کاسے ہیں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
دھرتی ہوئی طیبہ کی سرشار محبت سے
اک گل نے کیے صحرا گلزار محبت سے
بن جائے مری بگڑی، جیون بھی سنور جائے
اک بار نظر کر دیں سرکارﷺ محبت سے
ہو اِذن حضوری کا پہنچوں میں مدینے میں
نم آنکھیں تکیں تیرا دربار محبت سے
پر خطر وادیوں میں گزری ہے
درد کی گھاٹیوں میں گزری ہے
کب کہیں راستہ بدل جائے
ہر گھڑی وسوسوں میں گزری ہے
مخلصی حاصل حیات رہی
بےگماں حادثوں میں گزری ہے
ذرا ٹھہرو مری حالت سنبھل جائے تو پھر جانا
دل بے تاب تھوڑا سا بہل جائے تو پھر جانا
ابھی تو فرقتوں کے سحر سے نکلا نہیں ہوں میں
تمہارے وصل کا جادو یہ چل جائے تو پھر جانا
جمی ہیں دھڑکنیں تو منجمد ہیں میری سانسیں بھی
بدن میں زندگی تھوڑی مچل جائے تو پھر جانا
دشت تنہائی میں جلنے کی سزا جانے ہے
کیا ہے برتاؤ ہواؤں کا دِیا 🪔جانے ہے
میں اسے دل کے دھڑکنے کا سبب کہتا ہوں
اور اک وہ کہ مجھے خود سے جدا جانے ہے
بے ضمیروں کا بھی جینا کوئی جینا ہے کہ بس
لذتِ زیست تو پابندِ انا جانے ہے
نگاہ یار میں تھوڑا سنور جاؤں تو دستک دوں
جو نظروں سے در دل تک پہنچ پاؤں تو دستک دوں
سوالی ہوں تِرے در کا انا ممتاز پر مجھ کو
انا کے زعم سے باہر نکل آؤں تو دستک دوں
یہ سوچا ہے تِری محفل میں اک دن حشر برپاؤں
قیامت اپنے سر پر میں اٹھا لاؤں تو دستک دوں
چھوڑ کے فرزانوں کی محفل تنہا اس دیوانے کو
حضرت ناصح کیوں آ جاتے ہیں اکثر سمجھانے کو
کم ظرفوں کے در کی غلامی میرے بس کی بات نہیں
ایسے جینے پر میں کیوں ترجیح نہ دوں مر جانے کو
موت سے جن کو ڈر لگتا ہے ہوں گے وہ لوگ اور کوئی
ہر لمحہ تیار ہیں ہم طوفاں سے آنکھ ملانے کو
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ہم کیوں نہ نبیﷺ کا ذکر کریں، یہ ذکر ہی برکت والا ہے
یہ ذات بھی سب سے عالی ہے، یہ نام بھی سب سے اعلیٰ ہے
ہے جگمگ جگمگ سب عالم، کہتی ہے خدائی یہ ہر دم
سرکارﷺ کی آمد آمد ہے، یُوں چاروں سمت اُجالا ہے
اللہ سے محبت تو دیکھو، محبوبﷺ کی نسبت تو دیکھو
سرکارﷺ کی کملی کالی ہے، کعبے کا غلاف بھی کالا ہے
کسی صورت نہ ان آنکھوں کے اثر سے نکلے
کتنے ہی رنگ مِرے دیدۂ تر سے نکلے
ایک حسیں خواب کی تعبیر میں گھر سے نکلے
ہم اسیرانِ وفا چاہے جدھر سے نکلے
پہلے سرسبز کیا اس نے محبت کا شجر
پھر ثمر سارے اسی ایک شجر سے نکلے
یاد رکھنے سے بھول جانے سے
کٹ گئے دن کسی بہانے سے
میں سراپا ہوا دھنک صورت
تیرے کچھ کچھ قریب آنے سے
گھر میں بھونچال آ گیا ہوتا
صرف دروازہ کھٹکھٹانے سے
رنج و غم لاکھ ہوں مسکراتے رہو
دوست دشمن سے ملتے ملاتے رہو
یہ اندھیرے ہیں مہمان اک رات کے
تم مگر صبح تک جگمگاتے رہو
میں بھلانے کی کوشش کروں گا تمہیں
تم مجھے روز و شب یاد آتے رہو
جب کسی مسافر پر اعتبار کرتے ہیں
ساری عمر پھر اس کا انتظار کرتے ہیں
ساتھ چھوڑ جاتا ہے جو کسی دوراہے پر
خود کو اس کی چاہت سے بے قرار کرتے ہیں
جانے والا جاتا ہے، اس کو جانا ہوتا ہے
روکنے کی کوشش گو بار بار کرتے ہیں
مزاج شہر کی خشکی سے اجنبی میں تھا
٭پرمپرا کی کہانی میں بدعتی میں تھا
غریق فسق کے چہرے کو یاد پھر سے کر
مسرتوں بھرے ہونٹوں پہ کپکپی میں تھا
تِرا یہ زعم کہ تو خود ہی آ گیا ہے یہاں
اے نا سمجھ تِری آنکھوں کی روشنی میں تھا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بن کے نور خدا مصطفیٰﷺ آ گئے
مرحبا مرحبا مصطفیٰﷺ آ گئے
اجڑی دنیا تھی، آقاﷺ نے آباد کی
ہر طرف دھوم ہے ان کی میلاد کی
سب کے مشکل کشا مصطفیٰﷺ آ گئے
جن کی خبریں نبی سارے دیتے گئے
کتنے چہرے بدل رہی دنیا
خوب شاطر ہے مطلبی دنیا
تم کو دھوکا نہیں ملا مطلب
تم کو دھوکے میں رکھ رہی دنیا
ایک عاشق اداس ہے پھر سے
یعنی پھر جیت ہی گئی دنیا
ہوش اس پر کسی کا بس نہ چلا
وقت جب آ گیا تو پھر نہ ٹلا
سوز باطن کے ہیں یہ سب جلوے
آگ روشن ہے لے چراغ جلا
نہ چلا دل پہ زندگی کا فریب
سخت لوہا اس آنچ سے نہ گلا
سڑکوں پہ ڈگمگاتی ہوئی زندگی کے ساتھ
آوارہ خواہشیں بھی جگیں تیرگی کے ساتھ
شاید مِرے زوال کی اب فصل پک گئی
ہر شخص مل رہا ہے بڑی خوشدلی کے ساتھ
بن باس وہ بھی عین جوانی میں پا گیا
گندم بڑا ذلیل ہوا آدمی کے ساتھ
برہمی اچھی نہیں ہے مسکرا کر دیکھیے
ہمنشیں ہم کو کبھی اپنا بنا کر دیکھیے
یاد آتا ہے محبت کا زمانہ بولیے
کچھ نئی آنکھوں سے بھی آنکھیں ملا کر دیکھیے
چاند آخر چاند ہوتا ہے، غلط فہمی کہاں
دور جا کر دیکھیے یا پاس آ کر دیکھیے
نا خوش تھے جو بھی فصل شاخ نہال دل پر
وہ بھی ملول ہیں اب خاکِ زوالِ دل پر دل پر
حیراں نہیں ہو تم ہی دستِ سوالِ دل پر دل پر
ششدر رہے ہیں ہم بھی تاب و مجالِ دل پر
یا ایہاالمعاصی! ایسی بھی کیا اداسی
ہوتا نہیں گزارا رزق حلالِ دل پر
ہر طرف جبر ہے دھوکہ ہے ریاکاری ہے
اب جدھر دیکھیے جھوٹوں کی پرستاری ہے
اس میں چاہت ہے نہ رغبت نہ وفاداری ہے
یہ کوئی عشق نہیں ہے، یہ اداکاری ہے
پھر ملاقات کا طوفان اٹھا ہے دل میں
پھر سے اک بار بچھڑ جانے کی تیاری ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آپﷺ کی شان کریمی کا کنارا ہی نہیں
آپ سے بڑھ کے کوئی اللہ کو پیارا ہی نہیں
اب بھی جبریل یہی کہتے نظر آتے ہیں
آپﷺ سا کوئی حسیں اور ستارا ہی نہیں
دیکھ قرآن میں کیا کیا انہیں القاب دئیے
نام لے کر تو خدا نے بھی پکارا ہی نہیں
کوئی کمان و تیغ و سپر دے اے مولا
آہوں میں بھی ایک اثر دے اے مولا
یا تو دنیا کو بھی شیشے کا کر دے
یا پھر مجھ کو پتھر کر دے اے مولا
رہنے کو پردوں میں رہ لوں گی لیکن
بندوں کو بھی پاک نظر دے اے مولا
درد ایسا نہیں کہ تم سے کہیں
تم مسیحا نہیں کہ تم سے کہیں
اپنے دل سے بھی اب لڑائی ہے
کوئی جھگڑا نہیں کہ تم سے کہیں
صاف قسمت دکھائی دیتی ہے
شیشہ دھندلا نہیں کہ تم سے کہیں
خود تِرے حق میں مضر تیری جفا ہے کہ نہیں
لوگ بے پر کی اڑائیں گے، پتا ہے کہ نہیں
کیا عجب خود وہ خدا سے کریں فریاد اک دن
جن کے دل میں یہ گماں ہے کہ خدا ہے کہ نہیں
سینکڑوں پی گئے، جی بھر کے مگر اے ساقی
میرے حصے کا کوئی گھونٹ بچا ہے کہ نہیں
شاید کے کرے وصل ہی بھرپائی ہماری
تنہائی ہوئی جاتی ہے شیدائی ہماری
ہر گام ہوئی اس لیے رسوائی ہماری
بُوجہل کیا کرتا تھا اگوائی ہماری
یہ ہم کو بزرگوں سے وراثت میں ملی ہے
تم کو نظر آتی ہے جو اچھائی ہماری
میں دوست سے نہ کسی دشمنی سے ڈرتا ہوں
بس اس زبان کی بے پردگی سے دبتا ہوں
میں دور دور سے خود کو اٹھا کے لاتا رہا
کہ ٹوٹ جاؤں تو پھر دور تک بکھرتا ہوں
یہ سب اشارے مِرے کام کیوں نہیں آتے
یقیں کی مانگ کو رسم گماں سے بھرتا ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بگڑی ہوئی بنتی ہے ہر بات مدینے میں
غمخوار محمدﷺ کی ہے ذات مدینے میں
روضے پہ نگا ہیں ہوں رحمت کی گھٹائیں ہوں
ایسے بھی تو آ جائیں لمحات مدینے میں
وہ دن بھی تو آئے گا وہ رات بھی آئے گی
دن گزرے کا مکہ میں اور رات مدینے میں
ہے یہ صورت غم کے بس اظہار کی
ڈھال دیجے شکل میں اشعار کی
خیریت مطلوب ہے دل دار کی
داستاں مت چھیڑئیے سنسار کی
ہے عجب صورت یہاں تکرار کی
دل کی مانیں بات یا دلدار کی؟
دیا وفا کا جلانا ہے دیکھیے کیا ہو
خلاف سارا زمانہ ہے دیکھیے کیا ہو
فریب کھا کے بھی کہنا ہے باوفا ان کو
وقارِ عشق بڑھانا ہے؛ دیکھیے کیا ہو
بہار بیچنے نکلے ہیں خود چمن والے
خزاں تو صرف بہانہ ہے دیکھیے کیا ہو
آندھیوں کی زد میں رہ کر قافلہ چلتا رہا
روشنی کم ہو گئی لیکن دِیا جلتا رہا
سال بھر کے بعد بھی برسا نہ جب ابرِ کرم
جل رہا تھا شہر جو آتش بدن جلتا رہا
یہ نہ سوچا کتنے قاتل گھات میں تھے چار سُو
مجھ کو چلنا تھا تری جانب سو میں چلتا رہا
تو ہی بتا خدائے سخن یار کیا کریں
کر لی جنوں نے نہرِ خِرد پار کیا کریں؟
دیوانہ کر چکا ہے قبا تار کیا کریں؟
اے چارہ گر! بتا، رسن و دار کیا کریں؟
سگ ان سے پوچھتے ہیں کہ سرکار کیا کریں؟
اب یہ گداگرانِ شہر یار کیا کریں؟
خود سے اپنا ہاتھ چھڑا کر چلنا مشکل ہو جاتا ہے
ریت لہر کو پی جاتی ہے دریا ساحل ہو جاتا ہے
بعد تمہارے یہ ہی موسم کتنا بوجھل ہو جاتا ہے
ساتھ تمہارے یہ ہی موسم کتنا خوش دل ہو جاتا ہے
آنکھ برابر ساتھ گھٹا کے خوب برستی ہے مل جل کے
باہر بوندیں اندر آنسو سب کچھ جھلمل ہو جاتا ہے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
شراب خلد کی اے دوست گفتگو کیا ہے
زُلالِ شہؐ ہو میسر تو یہ سبُو کیا ہے
عذابِ نار خبر ہمیں کہ تُو کیا ہے
مگر کسی کی شفاعت کے رُوبرُو کیا ہے
خیال زُلفِ رُخِ شہؐ میں غرق رہتا ہے
نہ پوچھیے مِری دنیائے رنگ و بُو
طلب سے پہلے میرا کاسہ بھر دیتا ہے
میرے سارے کام وہ خود ہی کر دیتا ہے
غارِ حرا سے غارِ ثور تلک کا وقفہ
آنکھ کی پتلی کو کیا کیا منظر دیتا ہے
کرتا ہے آزاد وہ دنیا کو ہر ڈر سے
اور بس ایک خدا کا سب کو ڈر دیتا ہے
دل سے وحشی کو شادمان کیا
دیدۂ تر کو دیدبان کیا
ہم قبیلہ ہمارا تھا سقراط
زہر اس نے بھی نوش جان کیا
عشق اپنا اسی کے نام رہا
لگی ہے گشت کرنے یہ خبر آہستہ آہستہ
کمر کسنے لگا ہے فتنہ گر آہستہ آہستہ
کتر ڈالو اسے جتنا بھی تم سونے کی قینچی سے
پرندے کا نکل آتا ہے پر آہستہ آہستہ
ڈبو کر منچلی کشتی کو موجوں نے کہا ہنس کر
کیا جاتا ہے پانی میں سفر آہستہ آہستہ
مصور اپنے تصور کا ڈھونڈتا ہے دوام
نہ جام جم نہ وصال صنم نہ شہرت و نام
حیات جبر مسلسل ہے تو ہے جبر شکن
ہر ایک گام پہ آزادگی کا تجھ کو سلام
تصورات کے پھولوں میں رنگ بھرتا ہے
حقیقتوں کی کڑی دھوپ دیتی ہے انعام
نہ ہو ٹھکانہ کوئی جس کا تیرے گھر کے سوا
وہ اٹھ کے جائے کہاں تیری رہگزر کے سوا
دل حزیں کی تمنا نگاہ کے مطلوب
خدا رکھے وہ سبھی کچھ ہیں چارہ گر کے سوا
رضائے دوست تب و تاب سینۂ دشمن
دعا کو اور بھی کچھ چاہیے اثر کے سوا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
آسماں ہے خوب چمکا آمدِ سرکارﷺ پر
کیا حسیں منظر ہے پیارا آمدِ سرکارﷺ پر
تھی پریشانی کی ساعت اس لیے تو زور سے
بیٹھ کر ابلیس رویا آمدِ سرکارﷺ پر
کر رہے ہیں تذکرہ با ذوق سب سرکار کا
ہے مقدر سب کا اعلیٰ آمدِ سرکارﷺ پر
جاں بلب تشنہ دہن جاتے رہے
ساقیانِ بزم جم آتے رہے
اک غمِ دشمن ہی دنیا میں نہ تھا
اور بھی غم تھے جو تڑپاتے رہے
دردِ دل بڑھتا گیا ہے جس قدر
چارہ جوئی دوست فرماتے رہے
یہ کرب یہ نیرنگئ انفاس نہ رہ جائے
ایسا تو کبھی ہو کہ تِری آس نہ رہ جائے
کچھ اور لہو تھوک مِرے ڈُوبتے سُورج
احساس کے ہونٹوں پہ کہیں پیاس نہ رہ جائے
اس ضد میں حقائق کے جہنم میں جلے ہیں
کچھ پاس مِرے پاس مِرے پاس نہ رہ جائے
دیوار دل سے لپٹی ہوئی یاد اور ہے
در سے جڑے فسانوں کی تعداد اور ہے
بے خوابیوں کو غور سے دیکھا تو یہ کھلا
خوابوں میں ایک رنگ تِرے بعد اور ہے
چاہوں تو مصلحت کو فریضہ قرار دوں
پر کیا کروں کہ سنتِ اجداد اور ہے
خاک سمجھے گا کوئی پل بھر میں
آگ کس سمت سے لگی گھر میں
ذہنی پاگل ہیں صرف مندر میں
کوئی شنکر نہیں ہیں پتھر میں
لوگ تو اس طرح سے دیکھے ہیں
جیسے آسیب ہوں مِرے گھر میں
پتھرائی ہوئی آنکھوں کو بینائی عطا کر
رنگوں کو ملا چہروں کو یکتائی عطا کر
ہر چشم صدف قطرۂ نیساں کے لیے کھول
ان جھلسے ہوئے جسموں کو رعنائی عطا کر
صحرا کے لیے بھیج سمندر سے دشا لے
ان جھلسے ہوئے جسموں کو رعنائی عطا کر
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اے پیکرِ جمال توئی سیدِ بشرﷺ
اے شاہِ خوش خصال توئی سیدِ بشرﷺ
نورِ قدیم نے ہی رکھی تیرے نور میں
ہر خوبئ کمال، توئی سیدِ بشرﷺ
ہر دور میں رہی ہیں یہ پاکیزگی پسند
جد تیری، تیری آل، توئی سیدِ بشرﷺ
یوں لگ رہا ہے میں بھی سمجھدار ہو گئی
صحرا میں آندھیوں کی طرفدار ہو گئی
دل کی زمیں نے معرکہ جھیلا نہ تھا کبھی
دھڑکن سحر سے پہلے عزادار ہو گئی
آواز دے کے روکنا چاہا اسے مگر
میں بد نصیب آج ہی خوددار ہو گئی
بکھر گئی ہیں کبھی کی رفاقتیں ساری
اٹھا کے طاق میں رکھو حکایتیں ساری
انا پرستی کے اس دور میں کہاں کا خدا
ہر آنکھ پی چکی فرعونی طاقتیں ساری
جنوں نے پاؤں جو پھیلائے اپنی چادر سے
لپٹ کے رہ گئیں قدموں سے وحشتیں ساری
گھبرائے جتنا موت کی دل بستگی سے ہم
بے گانہ اتنے ہوتے گئے زندگی سے ہم
کیوں کہ بدل دیں نعمت غم کو خوشی سے ہم
کس طرح مانگ لائیں تبسم کسی سے ہم
کچھ ایسی باتیں سیکھ گئے دوستی سے ہم
کرتے نہیں اب اپنا تعارف کسی سے ہم
ماؤں کو انتظار کی عادت سی ہو گئی ہے
بچوں پہ اعتبار کی عادت سی ہو گئی ہے
اب بھیڑئیے بھی شہروں میں کرنے لگے ہیں راج
ان کو بھی اقتدار کی عادت سی ہو گئی ہے
تنہا نہ باغِ و بن میں کوئی دیکھا جا سکا
ہر گُل کو ایک خار کی عادت سی ہو گئی ہے
یقیں کی حد میں ہوں یا ورطۂ گمان میں ہوں
مجھے خبر ہے کہ میں ہوں پر امتحان میں ہوں
وہ پر سمیٹ کے خوش ہے کہ پا گیا مجھ کو
میں زخم کھا کے ہوں نازاں کہ آسمان میں ہوں
کوئی تو تھا کہ جو پتھر بنا گیا چھو کر
مجھے بتاؤ میں کس شخص کی امان میں ہوں
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ربنا
اگر ہم بھول جائیں تیرا رستہ
یا کر بیٹھیں خطاؤں پر خطائیں
نہ اس کی پوچھ گچھ کر ہم سے مولیٰ
نہ ہم پر بوجھ ایسا ڈال یا رب
کہ جیسا ہم سے پہلو پر اُتارا
نہ ایسا بوجھ کر محمول ہم پر
جو بچھڑ گیا ہے ہم سے وہی یار ڈھونڈتے ہیں
جہاں دل نے چوٹ کھائی، وہ دیار ڈھونڈتے ہیں
وہ جو دل سے چھن گیا ہے کسی اجنبی سے مل کر
وہ سکون ڈھونڈتے ہیں، وہ قرار ڈھونڈتے ہیں
کبھی مسکرا کے دل پر، کبھی بجلیاں گرا کے
وہ بہانے آزمائش کے ہزار ڈھونڈتے ہیں
بھول کر بھی ادھر نہیں آتی
وہ خوشی بام پر نہیں آتی
ریزہ ریزہ بکھر رہا ہوں میں
موت بھی اب نظر نہیں آتی
بھول جاؤں تجھے، نہیں ممکن
یاد بھی مختصر نہیں آتی
اداس کیوں ہے کوئی آسرا نہیں ہے کیا
اگر کوئی بھی نہیں ہے خدا نہیں ہے کیا
یہ بے گناہوں کی لاشیں سوال کرتی ہیں
شرافتوں کا زمانہ رہا نہیں ہے کیا
کھلے ہیں ارض وطن پر محبتوں کے گلاب
یہ خواب بار ہا دیکھا ہوا نہیں ہے کیا
نظر میں آ گئی جب سے جناب کی صورت
بدل گئی دلِ خانہ خراب کی صورت
بھرا ہوا ہے خمِ دل مئے محبت سے
تمہاری آنکھ ہے جامِ شراب کی صورت
ہمیشہ ایک ہی حالت نہیں زمانہ کی
ہماری زیست یہاں ہے حباب کی صورت
مجھے یاد ہیں وہ دن جو تِری بزم میں گزارے
وہ جھکی جھکی نگاہیں وہ دبے دبے اشارے
یہ تِرا سکوت رنگیں،۔ یہ ادائے بے نیازی
کہیں بجھ کے رہ نہ جائیں مِری روح کے شرارے
کبھی شوق زندگی تھا کبھی لطف سرخوشی تھا
مگر اب تو جی رہا ہوں تِری یاد کے سہارے
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
ازل سے ہیں قرارِ جاں، دل و نظر کا نور ہیں
ہمارے سب سے مہرباں، حضورؐ ہیں حضورؐ ہیں
ہماری چاہتوں میں ہے اثر عرب کے چاند کا
اسی لیے تو زیست کے اندھیرے ہم سے دور ہیں
ہمارے دل کو چھیڑتی ہے کب کسی کی گفتتگو
انہیں کے تذکرے ہیں بس جو باعثِ سرور ہیں
یقیں کی ریت پہ خالی سراب بنتی ہوں
جھلکتی آنکھ میں ان دیکھے خواب بنتی ہوں
مرے وجود کی ظلمت پہ بولنے والے
میں دیدہ تر سے کئی آفتاب بنتی ہوں
یہ دھوپ چاہ کی جھلسا نہ دے کہیں مجھ کو
تمہاری یاد سے اکثر سحاب بنتی ہوں
الجھا ہوں یاد عہد گزشتہ کے جال میں
ڈوبا ہوا ہوں آپ ہی اپنے خیال میں
جو حق تھا دوستی کا ادا میں نے کر دیا
گو اپنی عمر کٹ گئی رنج و ملال میں
اک بت کو میں نے بت سے بنایا خدائے پاک
شامل تھا یہ کرشمہ بھی میرے کمال میں
ستم کب ان پہ ڈھایا ہے کسی نے
بس آئینہ دکھایا ہے کسی نے
فلک سے خوں کی بارش کیوں نہ ہوتی
زمیں کا دل دکھایا ہے کسی نے
مری آنکھیں چھلکنے لگ گئیں ہیں
تعلق کیا نبھایا ہے کسی نے
حساب دوستاں در دل نہیں اب
پلٹنا باتوں سے مشکل نہیں اب
کیا کرتے تھے جو جاں بھی نچھاور
بھروسے کے بھی وہ قابل نہیں اب
سمندر کی حدیں بڑھنے لگی ہیں
نظر آتا کہیں ساحل نہیں اب
خوف سے سہمے گی ہوا اور ابھی اور ابھی
درد سے مہکے گی فضا اور ابھی اور ابھی
رنج میں ڈوبے گی صدا اور ابھی اور ابھی
ہونٹ پہ سسکے گی دعا اور ابھی اور ابھی
آنکھ سے برسے گی گھٹا اور ابھی اور ابھی
دشت میں مچلے گی قضا اور ابھی اور ابھی
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
کیجیے آپﷺ جو احسان مدینے میں رہے
شاہِ والاﷺ یہ ثناء خوان مدینے میں رہے
آپﷺ کے در کی گدائی کا ملے اذن اگر
"مجھ خطار کار سا انسان مدینے میں رہے"
سایۂ گنبدِ اخضر میں لکھوں نعتِ نبیﷺ
کوئی نسبت کوئی پہچان مدینے میں رہے
اک جلتی ریت سی ہے یہاں سے وہاں تلک
منظر دھواں دھواں سا ہے کیوں آسماں تلک
منزل کے سب نشان اڑا لے گئی ہوا
گرد و غبار بن گئے سب کارواں تلک
یادوں کی تتلیوں کے سبھی رنگ اڑ گئے
بے رنگ ہو چکے ہیں سبھی گلستاں تلک
فیض (بر مرگِ فیض احمد فیض)
تمام عمر
دشت میں سفر کیا
پاؤں کے چھالوں کے ساتھ
مگر کسی دور میں
جو خاموش نہیں رہا
سنا ہے کہ خاموش ہو گیا
حادثے میں نے غم و کرب کے جھمیلے کتنے
وقت نے ساتھ لگائے تھے جھمیلے کتنے
تلخ لہجوں کے وہ چبھتے ہوئے نشتر کے گھاؤ
مجھ سے مت پوچھ مِری روح میں پھیلے کتنے
جب سے دیکھا ہے ترے ساتھ کسی کو میں نے
ذہن میں آتے ہیں شبہات کے ریلے کتنے
محبتوں میں کسی کی ہوس ملائے ہوئے
میں لوٹ آیا ہوں خالص بدن اٹھائے ہوئے
میں جتنا چیخوں گا اتنی خموشی پھیلے گی
کئی صدائیں ہیں سینے میں گھر بنائے ہوئے
تم اپنے کھانے میں جتنا نمک ملاتے ہو
میں اپنے غم میں ہوں اتنی خوشی ملائے ہوئے
اس کے سوا اگر ہے کوئی زندگی تو کیا
یعنی، وہاں بھی کرنی پڑی بندگی تو کیا
مانا کہ آسماں سے زمیں تک ہے روشنی
روشن نہیں ضمیر، گئی تیرگی تو کیا
ہے جذبۂ خلوص سے سرشار زندگی
دنیا نہ دے سکی تجھے آسودگی تو کیا
عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
اک ذرہ خاک تھا میں دوشِ ہوا پر
تیرے احسان کہ میں ارضِ حرم تک پہنچا
کیا خوب وہ لمحہ وہ گھڑی اور وہ موسم
جب نُورِ رسالتؐ میرے دیدۂ نم تک پہنچا
دل بے قرار سو جا (بیٹے کی فوتگی پر لکھا گیا مرثیہ)
کسی مست خواب کا ہے عبث انتظار سو جا
کہ گزر گئی شب آدھی دل بے قرار سو جا
یہ نسیم ٹھنڈی ٹھنڈی یہ ہوا کے سرد جھونکے
تجھے دے رہے ہیں لوری مرے غم گسار سو جا
یہ تری صدائے نالہ مجھے متہم نہ کر دے
مرے پردہ دار سو جا مرے راز دار سو جا
خواب زار سفر میں
اس سے پہلے
کہ آگے بڑھو اور بڑھتے چلو
چند لمحے سہی
رک کے اس موڑ پر
اپنی یادوں میں کھو جاؤ، سوچو
کہ گزرتے مراحل
مر گئی میری آس منتری جی
اس لیے ہوں اداس منتری جی
آ رہی ہے سبھی دشاؤں سے
آج نفرت کی باس منتری جی
کھیت کھلیان میں بھی لاشوں کی
آپ اُگاتے ہیں گھاس منتری جی
میں اور خوابوں کا اندوختہ
عجب ماہ و سال میں پھنس گیا
بکھری بکھری بے ترتیب چیزوں میں
لمحہ لمحہ بکھر گیا
بس ایک جھونکا کبھی غبار کا
اِس سمت سے اُس سمت تک
الگ کر دیتا ہے
اٹھا ہے جو بھی قدم سوچ کر رفاقت کا
وہ ساتھ دے نہ سکا عشق کی مسافت کا
ستم ہے، شامِ غمِ آرزو بھی آ پہنچی
نکل سکا ہی نہیں دن ابھی رفاقت کا
گھروں میں چھوڑ کے آؤ کدورتیں دل کی
رکا ہوا ہے ابھی قافلہ محبت 💖 کا