لہو رواں ہے تو نبضیں رکی ہوئی کیوں ہیں
ہوا چلی ہے تو سانسیں گھٹی ہوئی کیوں ہیں
بلندیوں پہ اگر کوئی جا نہیں سکتا
تو پھر پہاڑ پہ راہیں بنی ہوئی کیوں ہیں
ابھی تو پاؤں سے کانٹے نکالنے ہیں مجھے
نظر کے سامنے کلیاں پڑی ہوئی کیوں ہیں
وہ آئے گا تو کسی ایک راستے سے مگر
ہر ایک راہ پہ آنکھیں بچھی ہوئی کیوں ہیں
ابھی سحر کو اجالے تلاش کرنے ہیں
ابھی تو رات ہے، شمعیں بجھی ہوئی کیوں ہیں
برا نہ مانے جو موسم تو پوچھ لوں اس سے
ہرے درخت کی شاخیں جلی ہوئی کیوں ہیں
نظر جھکا کے اگر چل رہا ہوں میں تو شاد
تمام شہر کی نظریں اٹھی ہوئی کیوں ہیں
مشتاق شاد
No comments:
Post a Comment