Tuesday, 30 September 2025

لہو رواں ہے تو نبضیں رکی ہوئی کیوں ہیں

 لہو رواں ہے تو نبضیں رکی ہوئی کیوں ہیں

ہوا چلی ہے تو سانسیں گھٹی ہوئی کیوں ہیں

بلندیوں پہ اگر کوئی جا نہیں سکتا

تو پھر پہاڑ پہ راہیں بنی ہوئی کیوں ہیں

ابھی تو پاؤں سے کانٹے نکالنے ہیں مجھے

نظر کے سامنے کلیاں پڑی ہوئی کیوں ہیں

وہ آئے گا تو کسی ایک راستے سے مگر

ہر ایک راہ پہ آنکھیں بچھی ہوئی کیوں ہیں

ابھی سحر کو اجالے تلاش کرنے ہیں

ابھی تو رات ہے، شمعیں بجھی ہوئی کیوں ہیں

برا نہ مانے جو موسم تو پوچھ لوں اس سے

ہرے درخت کی شاخیں جلی ہوئی کیوں ہیں

نظر جھکا کے اگر چل رہا ہوں میں تو شاد

تمام شہر کی نظریں اٹھی ہوئی کیوں ہیں


مشتاق شاد

No comments:

Post a Comment