خود تِرے حق میں مضر تیری جفا ہے کہ نہیں
لوگ بے پر کی اڑائیں گے، پتا ہے کہ نہیں
کیا عجب خود وہ خدا سے کریں فریاد اک دن
جن کے دل میں یہ گماں ہے کہ خدا ہے کہ نہیں
سینکڑوں پی گئے، جی بھر کے مگر اے ساقی
میرے حصے کا کوئی گھونٹ بچا ہے کہ نہیں
نامہ بر! خط نہیں لایا نہ سہی، یہ تو بتا؟
کچھ زبانی بھی ستمگر نے کہا ہے کہ نہیں
تم نے جاں خوب محبت میں گنوائی شبر
بولو اس موت میں جینے کا مزا ہے کہ نہیں
شبر جیلانی قمری
No comments:
Post a Comment