Monday, 15 September 2025

یقیں کی حد میں ہوں یا ورطۂ گمان میں ہوں

 یقیں کی حد میں ہوں یا ورطۂ گمان میں ہوں

مجھے خبر ہے کہ میں ہوں پر امتحان میں ہوں

وہ پر سمیٹ کے خوش ہے کہ پا گیا مجھ کو

میں زخم کھا کے ہوں نازاں کہ آسمان میں ہوں

کوئی تو تھا کہ جو پتھر بنا گیا چھو کر

مجھے بتاؤ میں کس شخص کی امان میں ہوں

ہوا کی آنکھ سے گزروں تو معرکہ ٹھہرے

مثال تیر ابھی حلقۂ کمان میں ہوں

ہوں منتظر کسی لمس نگاہ کا کب سے

میں ایک کتاب کی صورت کسی دکان میں ہوں

نہ کر تلاش کہ ساحل نہیں مِرا مسکن

میں ہر گھڑی تِری کشتی کے بادبان میں ہوں


مرتضیٰ علی شاد

No comments:

Post a Comment