یقیں کی حد میں ہوں یا ورطۂ گمان میں ہوں
مجھے خبر ہے کہ میں ہوں پر امتحان میں ہوں
وہ پر سمیٹ کے خوش ہے کہ پا گیا مجھ کو
میں زخم کھا کے ہوں نازاں کہ آسمان میں ہوں
کوئی تو تھا کہ جو پتھر بنا گیا چھو کر
مجھے بتاؤ میں کس شخص کی امان میں ہوں
ہوا کی آنکھ سے گزروں تو معرکہ ٹھہرے
مثال تیر ابھی حلقۂ کمان میں ہوں
ہوں منتظر کسی لمس نگاہ کا کب سے
میں ایک کتاب کی صورت کسی دکان میں ہوں
نہ کر تلاش کہ ساحل نہیں مِرا مسکن
میں ہر گھڑی تِری کشتی کے بادبان میں ہوں
مرتضیٰ علی شاد
No comments:
Post a Comment