کسی صورت نہ ان آنکھوں کے اثر سے نکلے
کتنے ہی رنگ مِرے دیدۂ تر سے نکلے
ایک حسیں خواب کی تعبیر میں گھر سے نکلے
ہم اسیرانِ وفا چاہے جدھر سے نکلے
پہلے سرسبز کیا اس نے محبت کا شجر
پھر ثمر سارے اسی ایک شجر سے نکلے
لمس سے اس کے بڑھی اور بھی پرواز جنوں
اس کے ہمراہ جو خوشبو کے سفر سے نکلے
سارے اسرار شب وصل پہ کھلتے ہی گئے
پھر تو اشعار مِرے لعل و گہر سے نکلے
پھر کوئی رنگ نمودار ہو صورت سے تِری
حُسن سارا ہی کسی دستِ ہنر سے نکلے
مہر حسین نقوی
No comments:
Post a Comment