نا خوش تھے جو بھی فصل شاخ نہال دل پر
وہ بھی ملول ہیں اب خاکِ زوالِ دل پر دل پر
حیراں نہیں ہو تم ہی دستِ سوالِ دل پر دل پر
ششدر رہے ہیں ہم بھی تاب و مجالِ دل پر
یا ایہاالمعاصی! ایسی بھی کیا اداسی
ہوتا نہیں گزارا رزق حلالِ دل پر
اس چشمِ سرمگیں نے دیکھا تھا ہولے ہولے
ہالہ سا آ گیا ہے دیکھو ہلالِ دل پر
غیروں کی انجمن میں، دلبر کے بھولے من میں
ہنگامہ کیوں ہے برپا صدقِ مقالِ دل پر
عرصہ ہوا جو پی تھی کافور ہے وہ مستی
لیکن نمی ہے باقی جامِ سفالِ دل پر
نذیر آزاد
No comments:
Post a Comment