Wednesday, 17 September 2025

پتھرائی ہوئی آنکھوں کو بینائی عطا کر

 پتھرائی ہوئی آنکھوں کو بینائی عطا کر

رنگوں کو ملا چہروں کو یکتائی عطا کر

ہر چشم صدف قطرۂ نیساں کے لیے کھول

ان جھلسے ہوئے جسموں کو رعنائی عطا کر

صحرا کے لیے بھیج سمندر سے دشا لے

ان جھلسے ہوئے جسموں کو رعنائی عطا کر

آہوں کی تمازت سے سلگتے ہیں در و بام

اب نوحہ کناں ہونٹوں پہ شہنائی عطا کر

تقدیر کو تدبیر کا آئینہ دکھا دے

دم دیتے ہوئے جذبوں کو برنائی عطا کر

لفظوں کے خزانے پہ ہیں جو سانپ انہیں مار

یا سہمی ہوئی روحوں کو گویائی عطا کر

بس تجھ سے ہوں خائف نہ ڈریں اور کسی سے

نقوی سے قلم کاروں کو سچائی عطا کر


محمد احمد نقوی

No comments:

Post a Comment