پتھرائی ہوئی آنکھوں کو بینائی عطا کر
رنگوں کو ملا چہروں کو یکتائی عطا کر
ہر چشم صدف قطرۂ نیساں کے لیے کھول
ان جھلسے ہوئے جسموں کو رعنائی عطا کر
صحرا کے لیے بھیج سمندر سے دشا لے
ان جھلسے ہوئے جسموں کو رعنائی عطا کر
آہوں کی تمازت سے سلگتے ہیں در و بام
اب نوحہ کناں ہونٹوں پہ شہنائی عطا کر
تقدیر کو تدبیر کا آئینہ دکھا دے
دم دیتے ہوئے جذبوں کو برنائی عطا کر
لفظوں کے خزانے پہ ہیں جو سانپ انہیں مار
یا سہمی ہوئی روحوں کو گویائی عطا کر
بس تجھ سے ہوں خائف نہ ڈریں اور کسی سے
نقوی سے قلم کاروں کو سچائی عطا کر
محمد احمد نقوی
No comments:
Post a Comment