Saturday, 20 September 2025

میں دوست سے نہ کسی دشمنی سے ڈرتا ہوں

 میں دوست سے نہ کسی دشمنی سے ڈرتا ہوں

بس اس زبان کی بے پردگی سے دبتا ہوں

میں دور دور سے خود کو اٹھا کے لاتا رہا

کہ ٹوٹ جاؤں تو پھر دور تک بکھرتا ہوں

یہ سب اشارے مِرے کام کیوں نہیں آتے

یقیں کی مانگ کو رسم گماں سے بھرتا ہوں

میں اتنی دور نکل آیا شہر ہستی سے

خود اپنی ذات سے اکثر لپٹ کے روتا ہوں

ابھی زمانہ مِرے ساتھ چلنے والا ہے

میں اس خیال سے جیتا ہوں اور نہ مرتا ہوں

زمانہ ڈھونڈ رہا ہے مجھے مکانوں میں

میں شہر ذات کے اندھے کنویں میں رہتا ہوں

ہمارے راستے جب سے جدا ہوئے ہیں سعید

میں اپنی ذات کو محسوس کر تو سکتا ہوں


سعید نقوی

No comments:

Post a Comment