یوں لگ رہا ہے میں بھی سمجھدار ہو گئی
صحرا میں آندھیوں کی طرفدار ہو گئی
دل کی زمیں نے معرکہ جھیلا نہ تھا کبھی
دھڑکن سحر سے پہلے عزادار ہو گئی
آواز دے کے روکنا چاہا اسے مگر
میں بد نصیب آج ہی خوددار ہو گئی
داغ جگر سے آنکھ کا کاجل بنا دیا
میں اپنی داستاں کی اداکار ہو گئی
دار و رسن سے رابطہ میرا نہ تھا مگر
کیا کیجیے کہ موت وفادار ہو گئی
شبینہ آرا
No comments:
Post a Comment