Tuesday, 16 September 2025

کیا کیجیے کہ موت وفادار ہو گئی

 یوں لگ رہا ہے میں بھی سمجھدار ہو گئی

صحرا میں آندھیوں کی طرفدار ہو گئی

دل کی زمیں نے معرکہ جھیلا نہ تھا کبھی

دھڑکن سحر سے پہلے عزادار ہو گئی

آواز دے کے روکنا چاہا اسے مگر

میں بد نصیب آج ہی خوددار ہو گئی

داغ جگر سے آنکھ کا کاجل بنا دیا

میں اپنی داستاں کی اداکار ہو گئی

دار و رسن سے رابطہ میرا نہ تھا مگر

کیا کیجیے کہ موت وفادار ہو گئی


شبینہ آرا

No comments:

Post a Comment