Tuesday, 30 September 2025

عنوان بدل گئے ہیں فسانے بدل گئے

 عنوان بدل گئے ہیں، فسانے بدل گئے

 تُو بھی بدل کہ اب تو زمانے بدل گئے

دل میں نہ رکھ دبا کے تمنّا کی بجلیوں

اکثر انہیں سے آئینہ خانے بدل گئے 

ہم سے محبتوں کی کہانی نہ پوچھیے

سب تیر چل چکے ہیں تو نشانے بدل گئے

جس حسن کی تلاش میں صدیوں رواں رہے

پہنچے وہاں تو لوگ سہانے بدل گئے

جذبات عشق نے نئی راہیں تلاش لیں

ارباب حسن کے بھی بہانے بدل گئے

خط کو کبوتروں کی ضرورت نہیں رہی

جادے پیامبر کے پرانے بدل گئے

رہنا سنور کے حسن کا فطری مزاج ہے

گیسو بدل گئے ہیں تو شانے بدل گئے

ساز قدیم رونق بزم طرب نہیں

مستی بدل گئی ہے ترانے بدل گئے

صورت بدل گئی ہے جزیروں کی اس طرح

جیسے سمندروں کے ٹھکانے بدل گئے

سجتی ہیں پارکوں میں حسینوں کی محفلیں

لذت بدل گئی ہے تو کھانے بدل گئے

یورپ سنوارنے کے عزائم تھے شیخ کے

پہنچے وہاں تو اپنے گھرانے بدل گئے


شاہین بھٹی

No comments:

Post a Comment