آندھیوں کی زد میں رہ کر قافلہ چلتا رہا
روشنی کم ہو گئی لیکن دِیا جلتا رہا
سال بھر کے بعد بھی برسا نہ جب ابرِ کرم
جل رہا تھا شہر جو آتش بدن جلتا رہا
یہ نہ سوچا کتنے قاتل گھات میں تھے چار سُو
مجھ کو چلنا تھا تری جانب سو میں چلتا رہا
بہہ گئے تھے اس کے سارے اقرباء سیلاب میں
ایک بچہ پھر بھی اپنے گاؤں میں پلتا رہا
ماہِ کامل کی طرح گھٹتا گیا اس کا جمال
ساتھ اس کے میں بھی سورج کی طرح ڈھلتا رہا
تھا اثر یہ بھی بزرگوں کی دعاؤں کا کنول
ھادثہ اک سر سے میرے آئے دن ٹلتا رہا
جی آر کنول
ڈاکٹر گلشن راٸے کنول
No comments:
Post a Comment