Tuesday, 16 September 2025

بکھر گئی ہیں کبھی کی رفاقتیں ساری

 بکھر گئی ہیں کبھی کی رفاقتیں ساری

اٹھا کے طاق میں رکھو حکایتیں ساری

انا پرستی کے اس دور میں کہاں کا خدا

ہر آنکھ پی چکی فرعونی طاقتیں ساری

جنوں نے پاؤں جو پھیلائے اپنی چادر سے

لپٹ کے رہ گئیں قدموں سے وحشتیں ساری

بشر نے کر ہی دیا آج موت کا ساماں

ہوئی ہیں خوف سے مصلوب راحتیں ساری

نفس نفس میں جہنم کی آگ شامل ہے

لہو لہو میں اترتی ہیں دہشتیں ساری

لہو کی جھیل میں پتھر نہ پھینکیے نقوی

کہ اس سے ہوتی ہیں پیدا بغاوتیں ساری


محمد صدیق نقوی

No comments:

Post a Comment