بکھر گئی ہیں کبھی کی رفاقتیں ساری
اٹھا کے طاق میں رکھو حکایتیں ساری
انا پرستی کے اس دور میں کہاں کا خدا
ہر آنکھ پی چکی فرعونی طاقتیں ساری
جنوں نے پاؤں جو پھیلائے اپنی چادر سے
لپٹ کے رہ گئیں قدموں سے وحشتیں ساری
بشر نے کر ہی دیا آج موت کا ساماں
ہوئی ہیں خوف سے مصلوب راحتیں ساری
نفس نفس میں جہنم کی آگ شامل ہے
لہو لہو میں اترتی ہیں دہشتیں ساری
لہو کی جھیل میں پتھر نہ پھینکیے نقوی
کہ اس سے ہوتی ہیں پیدا بغاوتیں ساری
محمد صدیق نقوی
No comments:
Post a Comment