Tuesday, 30 September 2025

زمانہ یوں ہی مجھے روز آزماتا رہا

 زمانہ یوں ہی مجھے روز آزماتا رہا

کبھی رلاتا رہا اور کبھی ہنساتا رہا

انہیں تو آنکھ ملانے کا بھی شعور نہیں

تمام عمر جنہیں آنکھ پر بٹھاتا رہا

یہ ضبطِ غم ہی مِرا حُسنِ پارسائی ہے

کہ دل میں روتا رہا اور مسکراتا رہا

حصارِ غم میں تڑپنے سے کام نہیں ہو گا

سبق خِرد کا یہی روز میں پڑھاتا رہا

جنہیں تھا حُسن کلامی پہ ناز اے مومن

انہیں کی میٹھی زبانوں سے زک اٹھاتا رہا


مومن ہندی

No comments:

Post a Comment