Thursday, 11 September 2025

مجھے یاد ہیں وہ دن جو تری بزم میں گزارے

 مجھے یاد ہیں وہ دن جو تِری بزم میں گزارے

وہ جھکی جھکی نگاہیں وہ دبے دبے اشارے

یہ تِرا سکوت رنگیں،۔ یہ ادائے بے نیازی

کہیں بجھ کے رہ نہ جائیں مِری روح کے شرارے

کبھی شوق زندگی تھا کبھی لطف سرخوشی تھا

مگر اب تو جی رہا ہوں تِری یاد کے سہارے

یہ چمن چمن بہاریں یہ رواں دواں ہوائیں

انہیں کیا سمجھ سکیں گے غم زندگی کے مارے

مجھے کیا سکون ملتا مِرے اشک کیسے تھمتے

کہ مچل رہے ہیں دل میں تِرے غم کے تیز دھارے

کہیں ہے وجود ساحل مجھے کیسے باور آئے

مِری کشتی تمنا نہ لگی کبھی کنارے

شب انتظار گزری مِری زندگی نہ بدلی

وہی ہوش! میرے آنسو وہی ڈوبتے ستارے


ہوش بلگرامی

نواب ہوش یار جنگ

No comments:

Post a Comment