ہر طرف جبر ہے دھوکہ ہے ریاکاری ہے
اب جدھر دیکھیے جھوٹوں کی پرستاری ہے
اس میں چاہت ہے نہ رغبت نہ وفاداری ہے
یہ کوئی عشق نہیں ہے، یہ اداکاری ہے
پھر ملاقات کا طوفان اٹھا ہے دل میں
پھر سے اک بار بچھڑ جانے کی تیاری ہے
بولنے والوں کا کیا حشر ہوا دیکھا ہے
اب کے خاموش ہی رہنے میں سمجھداری ہے
روز زندان کی دیوار پہ لکھتا ہے کوئی
ہائے تنہائی سلاسل سے کہیں بھاری ہے
اپنے معیار سے نیچے میں بھلا کیوں آؤں
تم جسے زعم سمجھتے ہو وہ خودداری ہے
خانۂ 💝 دل میں کیا کرتا ہے ماتم اظہر
کوئی تو ہے کہ جو مصروف عزا داری ہے
اظہر سجاد
No comments:
Post a Comment